اسلام میں پانچ بنیادی انسانی ضروریات کی حفاظت – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

اسلام میں پانچ بنیادی انسانی ضروریات کی حفاظت – شیخ صالح بن فوزان الفوزان​


Protection of the five necessities in Islaam – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan​

اسلام میں پانچ بنیادی انسانی ضروریات کی حفاظت​

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ​

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)​

ترجمہ: طارق علی بروہی​

مصدر: دروس فى شرح نواقض الإسلام۔​

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام​



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

1- دین کی حفاظت:

پس چاہیے کہ دین کی حفاظت کی جائے اور واجب ہے کہ اسلام سے خارج ہونے والے مرتدوں پر حکم کا نفاذ کیا جائے(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا) :​

’’مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ‘‘([1])

(جو کوئی اپنا دین اسلام بدل دے تو اسے قتل کردو)([2])۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ‘‘([3])

(تین کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں: ایک شادی شدہ زانی، دوسرا جان کے بدلے جان اور تیسرا دین کو چھوڑنے والا اور جماعت سے خروج اختیار کرنے والا)۔​

2- جان کی حفاظت:

ضروریات میں سے دوسری چیز جان ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے قصاص کو مشروع قرار دیا ہے:​

﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّـٰٓــاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 179)​

(اور تمہارے لیے قصاص لینے میں ہی زندگی ہے اے عقل والو! تاکہ تم پرہیز کرو)​

مومن جانوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اسی لیے زیادتی کے خلاف بچاؤ کے لیے قصاص کو مشروع قرار دیا گیا ہے:​

﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ ﴾ (اور تمہارے لیے قصاص لینے میں ہی زندگی ہے) کیونکہ جو قصاص ہے اگرچہ بے شک اس میں مجرم کو قتل کیا جاتا ہے لیکن یہ لوگوں کی زندگی کا سبب ہے کیونکہ اس طرح سے قتل کی روک تھام ہوگی اور لوگ اپنے خون کے تعلق سے امن میں ہوں گے۔ کیونکہ اگر قاتل کو یا جو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یہ معلوم ہوگا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو عنقریب اسے بھی قتل کردیا جائے گا تو وہ قتل سے باز آجائے گا، پس وہ اپنے آپ کو اور اس کو بھی جس کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا بچا لے گا۔ ا س طرح سے خون بہنے سے بچ جاتا ہے اور حفاظت ہوتی ہے۔​

3- عقل کی حفاظت:

پانچ ضروریات میں سے تیسری چیز عقل ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا اور اسے دیگر تمام مخلوقا ت سے ممتاز کیا، کیونکہ اسے اس نے عقل عطاء فرمائی تاکہ وہ نفع بخش اور نقصان دہ، پاک اور ناپاک، کفر اور ایمان میں تمیز کرسکے:​

﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ (الاسراء:70)​

(اوریقیناً تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی اور انہیں خشكی اور سمندر میں سواریاں عطاء کیں)​

﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ﴾ (التین: 4)​

(بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا کیا ہے)​

اللہ تعالی نے انسان کو اس عقل کے ذریعے ممیز فرمایا ہے۔ لہذا اگر انسان اپنی عقل کے خلاف ہی کوئی اقدام کرے جیسے اسے منشیات میں سے کسی چیز کا عادی بنائے تو اللہ تعالی نے اس پر حد قائم کرنا واجب قرار دیا ہے کہ اسے کوڑے لگائے جائيں تاکہ عقل کی حفاظت ہو اور اس سے کھلواڑ نہ کیا جائے۔​

4- مال کی حفاظت:

پانچ ضروریات میں سے چوتھی چیز مالوں کی حفاظت ہے، کیونکہ لوگوں کے لیے یہ مال ضروری ہے کہ جس کے ذریعے ان کی مصلحتیں پوری ہوتی ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے مال زندگی میں اعصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:​

﴿وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيٰـمًا﴾ (النساء: 5)​

(اور بےسمجھوں کو اپنے وہ مال نہ دو جو اللہ نے تمہارے قائم رہنے کا ذریعہ بنایا ہے)​

جو لوگوں کے مالوں میں زیادتی کرے گا چوری چکاری کے ذریعے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا تاکہ لوگ اپنے مالوں کے بارے میں امن سے رہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:​

﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾(المائدۃ: 38)​

(اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ، اس کی سزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف بطور عبرت ، اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے)​

اگر ایک بھی ہاتھ کٹ جائے تو لوگوں کے مالوں کی حفاظت ہوجاتی ہے۔ اسی​

لیے آپ پاتے ہیں کہ جن ممالک میں حدود کا نفاذ ہوتا ہے وہ اپنے دین، جان، مال و عزتوں کے تعلق سے امن و اطمینان سے رہتے ہیں۔ جبکہ جن ممالک میں حدود کا نفاذ نہیں ہوتا تو یہ بات معلوم ہے کہ انہیں پھر افراتفری، بہیمانہ حرکات، بے چینی و خوف کی فضاء نے تاریک بنا رکھا ہوتا ہے۔​

.5نسب و عزتوں کی حفاظت :

پانچ ضروریات میں سے پانچویں ضرورت نسب و عزتوں کی حفاظت ہے۔ اسی لیے زنا کو حرام قرار دیا گیا اور زانی پر حدود کے نفاذ کا حکم دیا گیا ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائيں اگر وہ غیرشادی شدہ ہوں، اور اگر شادہ شدہ ہوں تو رجم (پتھرو ں سے مارا جائے) یہاں تک کہ اسے موت آجائے۔تاکہ انساب کی اختلاط سے حفاظت ہو۔ جب زانیوں پر حدود کا نفاذ ہوگا تو انساب کی حفاظت ہوگی۔ لیکن اگر زانیوں پر حدود قائم کرنے کو معطل کردیا جائے گا تو انساب میں اختلاط ہوجائے گا، اور نسب میں اختلاط ہوجانے کی وجہ سے ایک شخص جانتا ہی نہيں ہوگا کہ اس کا بیٹا کون ہے۔ کیونکہ اس عورت پر بہت سے مرد ملوث ہوئے ہيں تو معلوم نہيں کہ یہ کس کا حمل ہے، اس لیے وہ انساب ضائع ہوتے ہیں کہ جنہيں اللہ تعالی نے لوگوں کے مابین تمیز کا سبب بنایا ہے کہ فلاں شخص کس میں سے ہے۔ اور اس کے نتیجے میں شرعی احکام بھی مرتب ہوتے ہيں جیسے محرم ہونا اور میراث وغیرہ جیسے شرعی احکام نسب اور لوگوں کے آپس میں صحیح تعارف سے ہی ممکن ہوتےہیں ۔ یہ جانتا ہے کہ بے شک وہ اس کا باپ ہے، اور وہ اس کا بھائی ہے، یہ اس کا چاچا ہے، یہ ماموں ہے۔ تو اس کے ذریعے سے لوگوں کے مابین تعلق قائم ہوتا ہے، لہذا یہ ہے انساب کی حفاظت۔​

جہاں تک بات ہے عزتوں کی حفاظت کی تو وہ قذف کی حد (یعنی پاک دامن پر تہمت لگانے کی حد) سے حاصل ہوتی ہے۔ جو لوگوں پر فحاشی کی تہمت لگائے او رکہے: فلاں زانی ہے، فلاں لوطی ہے تو اسے کوڑے لگائے جائيں گے اس کے بعد کہ اس سے تہمت لگانے پر مطالبہ کیا جائے کہ وہ ا س پر چار گواہ پیش کرے جو ا س بات کی گواہی دیں جو وہ کہہ رہا ہے، ورنہ اسے کوڑے لگائے جائيں گے، اس کی عدالت ساقط ہوجائے گی اور وہ فاسق بن جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:​

﴿وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ، اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ (النور: 4-5)​

(اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اسّی (٨٠) کوڑے مارو اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول نہ کرو، اور وہی فاسق لوگ ہیں، مگر جو لوگ اس کے بعد تو بہ کریں اور اصلاح کرلیں تو یقیناً اللہ بےحد بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے)​

تو یہ ہیں وہ پانچ ضروریات جن کی حفاظت کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اور ان کی پامالی پر سزائیں مرتب کی ہیں۔ جن میں سے سب سے پہلے دین کی حفاظت ہے، اور دین کی حفاظت اس کے نواقض سے بچ کر ہوتی ہے کہ جو اس دین کو توڑ دیتے ہيں اور ان کی وجہ سے ارتداد ہوجاتا ہے، ساتھ ہی مرتد کے قتل کے ذریعے بھی اس کی حفاظت ہوتی ہے۔​





[1] أخرجه البخاري 3017، والنسائي 4059، والترمذي 1458، وأحمد فى مسنده 1871 من حديث عبدالله بن عباس w.





[2] جو کسی فرد کی نہیں بلکہ مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے، تفصیل کتاب میں آگے ذکر ہوگی۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)





[3] أخرجه البخاري 6878‏، ومسلم 1676، وأبو داود 4352، والترمذي 1402، وإبن ماجه 2534 من حديث عبدالله بن مسعود t.
 
  • Like
Reactions: 2 people

Frozen

Registered
Oct 20, 2018
13
7
3
اسلام میں پانچ بنیادی انسانی ضروریات کی حفاظت – شیخ صالح بن فوزان الفوزان​


Protection of the five necessities in Islaam – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan​

اسلام میں پانچ بنیادی انسانی ضروریات کی حفاظت​

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ​

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)​

ترجمہ: طارق علی بروہی​

مصدر: دروس فى شرح نواقض الإسلام۔​

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام​



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم​

1- دین کی حفاظت:

پس چاہیے کہ دین کی حفاظت کی جائے اور واجب ہے کہ اسلام سے خارج ہونے والے مرتدوں پر حکم کا نفاذ کیا جائے(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا) :​

’’مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ‘‘([1])

(جو کوئی اپنا دین اسلام بدل دے تو اسے قتل کردو)([2])۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ‘‘([3])

(تین کے علاوہ کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں: ایک شادی شدہ زانی، دوسرا جان کے بدلے جان اور تیسرا دین کو چھوڑنے والا اور جماعت سے خروج اختیار کرنے والا)۔​

2- جان کی حفاظت:

ضروریات میں سے دوسری چیز جان ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے قصاص کو مشروع قرار دیا ہے:​

﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّـٰٓــاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 179)​

(اور تمہارے لیے قصاص لینے میں ہی زندگی ہے اے عقل والو! تاکہ تم پرہیز کرو)​

مومن جانوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اسی لیے زیادتی کے خلاف بچاؤ کے لیے قصاص کو مشروع قرار دیا گیا ہے:​

﴿وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ ﴾ (اور تمہارے لیے قصاص لینے میں ہی زندگی ہے) کیونکہ جو قصاص ہے اگرچہ بے شک اس میں مجرم کو قتل کیا جاتا ہے لیکن یہ لوگوں کی زندگی کا سبب ہے کیونکہ اس طرح سے قتل کی روک تھام ہوگی اور لوگ اپنے خون کے تعلق سے امن میں ہوں گے۔ کیونکہ اگر قاتل کو یا جو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یہ معلوم ہوگا کہ اگر اس نے ایسا کیا تو عنقریب اسے بھی قتل کردیا جائے گا تو وہ قتل سے باز آجائے گا، پس وہ اپنے آپ کو اور اس کو بھی جس کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا بچا لے گا۔ ا س طرح سے خون بہنے سے بچ جاتا ہے اور حفاظت ہوتی ہے۔​

3- عقل کی حفاظت:

پانچ ضروریات میں سے تیسری چیز عقل ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا اور اسے دیگر تمام مخلوقا ت سے ممتاز کیا، کیونکہ اسے اس نے عقل عطاء فرمائی تاکہ وہ نفع بخش اور نقصان دہ، پاک اور ناپاک، کفر اور ایمان میں تمیز کرسکے:​

﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ (الاسراء:70)​

(اوریقیناً تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی اور انہیں خشكی اور سمندر میں سواریاں عطاء کیں)​

﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ﴾ (التین: 4)​

(بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا کیا ہے)​

اللہ تعالی نے انسان کو اس عقل کے ذریعے ممیز فرمایا ہے۔ لہذا اگر انسان اپنی عقل کے خلاف ہی کوئی اقدام کرے جیسے اسے منشیات میں سے کسی چیز کا عادی بنائے تو اللہ تعالی نے اس پر حد قائم کرنا واجب قرار دیا ہے کہ اسے کوڑے لگائے جائيں تاکہ عقل کی حفاظت ہو اور اس سے کھلواڑ نہ کیا جائے۔​

4- مال کی حفاظت:

پانچ ضروریات میں سے چوتھی چیز مالوں کی حفاظت ہے، کیونکہ لوگوں کے لیے یہ مال ضروری ہے کہ جس کے ذریعے ان کی مصلحتیں پوری ہوتی ہیں۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے مال زندگی میں اعصاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:​

﴿وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيٰـمًا﴾ (النساء: 5)​

(اور بےسمجھوں کو اپنے وہ مال نہ دو جو اللہ نے تمہارے قائم رہنے کا ذریعہ بنایا ہے)​

جو لوگوں کے مالوں میں زیادتی کرے گا چوری چکاری کے ذریعے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا تاکہ لوگ اپنے مالوں کے بارے میں امن سے رہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:​

﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾(المائدۃ: 38)​

(اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ، اس کی سزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف بطور عبرت ، اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے)​

اگر ایک بھی ہاتھ کٹ جائے تو لوگوں کے مالوں کی حفاظت ہوجاتی ہے۔ اسی​

لیے آپ پاتے ہیں کہ جن ممالک میں حدود کا نفاذ ہوتا ہے وہ اپنے دین، جان، مال و عزتوں کے تعلق سے امن و اطمینان سے رہتے ہیں۔ جبکہ جن ممالک میں حدود کا نفاذ نہیں ہوتا تو یہ بات معلوم ہے کہ انہیں پھر افراتفری، بہیمانہ حرکات، بے چینی و خوف کی فضاء نے تاریک بنا رکھا ہوتا ہے۔​

.5نسب و عزتوں کی حفاظت :

پانچ ضروریات میں سے پانچویں ضرورت نسب و عزتوں کی حفاظت ہے۔ اسی لیے زنا کو حرام قرار دیا گیا اور زانی پر حدود کے نفاذ کا حکم دیا گیا ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائيں اگر وہ غیرشادی شدہ ہوں، اور اگر شادہ شدہ ہوں تو رجم (پتھرو ں سے مارا جائے) یہاں تک کہ اسے موت آجائے۔تاکہ انساب کی اختلاط سے حفاظت ہو۔ جب زانیوں پر حدود کا نفاذ ہوگا تو انساب کی حفاظت ہوگی۔ لیکن اگر زانیوں پر حدود قائم کرنے کو معطل کردیا جائے گا تو انساب میں اختلاط ہوجائے گا، اور نسب میں اختلاط ہوجانے کی وجہ سے ایک شخص جانتا ہی نہيں ہوگا کہ اس کا بیٹا کون ہے۔ کیونکہ اس عورت پر بہت سے مرد ملوث ہوئے ہيں تو معلوم نہيں کہ یہ کس کا حمل ہے، اس لیے وہ انساب ضائع ہوتے ہیں کہ جنہيں اللہ تعالی نے لوگوں کے مابین تمیز کا سبب بنایا ہے کہ فلاں شخص کس میں سے ہے۔ اور اس کے نتیجے میں شرعی احکام بھی مرتب ہوتے ہيں جیسے محرم ہونا اور میراث وغیرہ جیسے شرعی احکام نسب اور لوگوں کے آپس میں صحیح تعارف سے ہی ممکن ہوتےہیں ۔ یہ جانتا ہے کہ بے شک وہ اس کا باپ ہے، اور وہ اس کا بھائی ہے، یہ اس کا چاچا ہے، یہ ماموں ہے۔ تو اس کے ذریعے سے لوگوں کے مابین تعلق قائم ہوتا ہے، لہذا یہ ہے انساب کی حفاظت۔​

جہاں تک بات ہے عزتوں کی حفاظت کی تو وہ قذف کی حد (یعنی پاک دامن پر تہمت لگانے کی حد) سے حاصل ہوتی ہے۔ جو لوگوں پر فحاشی کی تہمت لگائے او رکہے: فلاں زانی ہے، فلاں لوطی ہے تو اسے کوڑے لگائے جائيں گے اس کے بعد کہ اس سے تہمت لگانے پر مطالبہ کیا جائے کہ وہ ا س پر چار گواہ پیش کرے جو ا س بات کی گواہی دیں جو وہ کہہ رہا ہے، ورنہ اسے کوڑے لگائے جائيں گے، اس کی عدالت ساقط ہوجائے گی اور وہ فاسق بن جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:​

﴿وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ، اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا ۚ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾ (النور: 4-5)​

(اور وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ نہ لائیں تو انہیں اسّی (٨٠) کوڑے مارو اور ان کی کوئی گواہی کبھی قبول نہ کرو، اور وہی فاسق لوگ ہیں، مگر جو لوگ اس کے بعد تو بہ کریں اور اصلاح کرلیں تو یقیناً اللہ بےحد بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے)​

تو یہ ہیں وہ پانچ ضروریات جن کی حفاظت کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اور ان کی پامالی پر سزائیں مرتب کی ہیں۔ جن میں سے سب سے پہلے دین کی حفاظت ہے، اور دین کی حفاظت اس کے نواقض سے بچ کر ہوتی ہے کہ جو اس دین کو توڑ دیتے ہيں اور ان کی وجہ سے ارتداد ہوجاتا ہے، ساتھ ہی مرتد کے قتل کے ذریعے بھی اس کی حفاظت ہوتی ہے۔​





[1] أخرجه البخاري 3017، والنسائي 4059، والترمذي 1458، وأحمد فى مسنده 1871 من حديث عبدالله بن عباس w.





[2] جو کسی فرد کی نہیں بلکہ مسلم حکومت کی ذمہ داری ہے، تفصیل کتاب میں آگے ذکر ہوگی۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)





[3] أخرجه البخاري 6878‏، ومسلم 1676، وأبو داود 4352، والترمذي 1402، وإبن ماجه 2534 من حديث عبدالله بن مسعود t.
Very informative ....Do post more topics like this...jazakAllah...stay bless sky:)
 

Mix & Lcz

  • Pakistani #1 Chat Room - Its your Family chat Room -> Feel like Family.
  • Our community has been around for many years and pride ourselves on offering unbiased, critical discussion among people of all different backgrounds. We are working every day to make sure our community is one of the best.

Quick Navigation

User Menu