مڈل کلاس گھرانوں میں کئی چیزیں ایسی ہوتی ہیں آپ کہیں بھی چلے جاؤ وہ کبھی نہیں بدلتیں ۔جیسے میں آج تک اپنے کپڑے ایک نمبر بڑے خریدتا ہوں۔ ماں بچپن میں ایک سائز بڑا لے کر دیتی تھی کہ اگلے سال بھی پورا آنا چاہیئے۔ جب کپڑے نئے ہوتے تھے تو ڈھیلے ہوتے تھے اور جب تک پورے آتے تھے گھَس جاتے تھے۔ سب سے برا حال ہوتا تھا اسکول کی پینٹ کا، آپ کلاس پاس کر جاتے تھے مگر پینٹ کا بجٹ نہیں پاس ہوتا تھا۔ ماں کیا کرتی تھی ؟ دو انچ پوہنچے کھول دیتی تھی ،پیچھے سے کمر۔ اور جب ماں کو کہتا کہ امی یہ پہن کر جاوں گا تو عجیب لگے گی ۔ ماں وہی پینٹ اٹھا کر کہتی "کہاں ؟ پتا بھی نہیں چل رہا"۔ آپ زیادہ بحث کرو تو جواب آتا "میں تیری ماں ہوں آئی سمجھ ، میں جھوٹ بولوں گی ؟"۔
آپ یقین مانیں زمانے میں جدت آنے کے باوجود میں کبھی سلم فٹ شرٹ یا سلم فٹ پینٹ نہیں خرید سکا ، ذہن میں وہی اٹکا ہوتا ہے کہ ایک نمبر بڑی لو اگلے سال بھی چل جائے گی۔۔۔
مڈل کلاس گھر میں ایک الماری ایسی ضرور ہوتی ہے جو ماں کے جہیز میں آئی ہوتی ہے۔ اس الماری کے ایک خانے میں دنیا جہاں کے پیپرز ماں محفوظ رکھتی تھی سوائے نیوز پیپر کے۔ جب شیشے صاف کرنے کی باری آتی تو ماں کہتی "جا ذرا خالہ شمیم (ہمسائی) سے پرانی اخبار تو لے کر آ"۔ اس الماری میں سے ایک دن میری مڈل کلاس کی ڈیٹ شیٹ نکلی ۔میں نے ماں کو کہا کہ "امی یہ آخر کیوں سنبھال کر رکھی ہے اس کی اب کیا ضرورت ؟" ماں کا جواب آیا "کیا پتا کونسا کاغذ کب کام آ جائے ، تجھے کیا مسئلہ ہے؟"۔
میں نے چار سال قبل اپنا گھر بدلا تو ماں کے جہیز کی وہ الماری جو دیمک سے اتنی بوسیدہ ہو چکی تھی کہ ذرا سا ہلانے جلانے پر خدشہ پیدا ہونے لگتا مبادا کہیں جھڑ کر اوپر ہی نہ آن پڑے ۔ بڑے بوجھل دل کے ساتھ وہ الماری کسی کو دان کر دی ۔ نئے گھر میں نئی الماری میں اب میں وہ کاغذ بھی سنبھال کر رکھتا ہوں جس میں میری مڈل کلاس کی ڈیٹ شیٹ سمیت وہ پرچیاں بھی شامل ہیں جن میں سن 1984 میں مجھے لگنے والے حفاظتی ٹیکوں کی تفصیلات موجود ہیں جب میں دو سال کا بچہ ہوتا تھا۔اور جب جب میں نے ان کاغذات کو تلف کرنے کی ہمت پکڑی تب تب مرحومہ ماں کا چہرہ دکھی لہجے کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوتا اور کانوں میں ماں کی آواز آنے لگتی "تجھے کیا پتا ، پتا نہیں کونسا کاغذ کب کام آ جائے"۔۔۔
آپ یقین مانیں زمانے میں جدت آنے کے باوجود میں کبھی سلم فٹ شرٹ یا سلم فٹ پینٹ نہیں خرید سکا ، ذہن میں وہی اٹکا ہوتا ہے کہ ایک نمبر بڑی لو اگلے سال بھی چل جائے گی۔۔۔
مڈل کلاس گھر میں ایک الماری ایسی ضرور ہوتی ہے جو ماں کے جہیز میں آئی ہوتی ہے۔ اس الماری کے ایک خانے میں دنیا جہاں کے پیپرز ماں محفوظ رکھتی تھی سوائے نیوز پیپر کے۔ جب شیشے صاف کرنے کی باری آتی تو ماں کہتی "جا ذرا خالہ شمیم (ہمسائی) سے پرانی اخبار تو لے کر آ"۔ اس الماری میں سے ایک دن میری مڈل کلاس کی ڈیٹ شیٹ نکلی ۔میں نے ماں کو کہا کہ "امی یہ آخر کیوں سنبھال کر رکھی ہے اس کی اب کیا ضرورت ؟" ماں کا جواب آیا "کیا پتا کونسا کاغذ کب کام آ جائے ، تجھے کیا مسئلہ ہے؟"۔
میں نے چار سال قبل اپنا گھر بدلا تو ماں کے جہیز کی وہ الماری جو دیمک سے اتنی بوسیدہ ہو چکی تھی کہ ذرا سا ہلانے جلانے پر خدشہ پیدا ہونے لگتا مبادا کہیں جھڑ کر اوپر ہی نہ آن پڑے ۔ بڑے بوجھل دل کے ساتھ وہ الماری کسی کو دان کر دی ۔ نئے گھر میں نئی الماری میں اب میں وہ کاغذ بھی سنبھال کر رکھتا ہوں جس میں میری مڈل کلاس کی ڈیٹ شیٹ سمیت وہ پرچیاں بھی شامل ہیں جن میں سن 1984 میں مجھے لگنے والے حفاظتی ٹیکوں کی تفصیلات موجود ہیں جب میں دو سال کا بچہ ہوتا تھا۔اور جب جب میں نے ان کاغذات کو تلف کرنے کی ہمت پکڑی تب تب مرحومہ ماں کا چہرہ دکھی لہجے کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوتا اور کانوں میں ماں کی آواز آنے لگتی "تجھے کیا پتا ، پتا نہیں کونسا کاغذ کب کام آ جائے"۔۔۔